خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

غزل| سمپورن سنگھ گلزارؔ انتخاب| بزم سخن

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
جانے کس کا ذکر تھا اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گذرتے شاید تھوڑا وقت لگے
ذرا سی دھوپ انڈیل میرے پیمانے میں
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام