دنیا مزاج دان و مزاج آشنا نہ تھی

غزل| ظفرؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

دنیا مزاج دان و مزاج آشنا نہ تھی
دنیا کے پاس زہر بہت تھا دوا نہ تھی
روشن تھا دل میں صرف کسی یاد کا چراغ
گھر میں کوئی بھی روشنی اس کے سوا نہ تھی
میں تھا وفا سرشت مجھے تھی وفا عزیز
وہ تھا بہانہ جُو اسے خوئے بہانہ تھی
یوں کوئی میرے پاس سے ہو کر گزر گیا
جیسے کبھی نظر سے نظر آشنا نہ تھی
بے وجہ سنگسار جو مجھ کو کیا گیا
وہ تھی اک انتقام کی صورت سزا نہ تھی
دل بھی کسی کے جور پہ تھا دم بخود ظفرؔ
لب پر بھی احتجاج کی کوئی صدا نہ تھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام