حجاب اوروں کو دنیائے دنی معلوم ہوتی ہے

غزل| خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ انتخاب| بزم سخن

حجاب اوروں کو دنیائے دنی معلوم ہوتی ہے
مجھے ہر سو تری جلوہ گری معلوم ہوتی ہے
مجھے ہر دم اجل سر پر کھڑی معلوم ہوتی ہے
مری ہر سانس مجھ کو آخری معلوم ہوتی ہے
مری ہستی مجھے خود بھی مٹی معلوم ہوتی ہے
ابھی اس بیخودی میں کچھ خودی معلوم ہوتی ہے
تری تصویر سی ہر سو کھنچی معلوم ہوتی ہے
تصور کی یہ سب صورت گری معلوم ہوتی ہے
مژہ تر ہیں نہ آنکھوں میں نمی معلوم ہوتی ہے
انھیں اس دل کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
یہ کَے دن کی بہارِ باغ ہے کَے دن کی رونق ہے
مجھے پھولوں کے ہنسنے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
اہم سمجھا تھا میں نے ابتدائے عشق میں جن کو
اب ان باتوں پہ خود مجھ کو ہنسی معلوم ہوتی ہے
خیالی روشنی روشن خیالی آج کل کی ہے
یہ ظلمت ہے جو سب کو روشنی معلوم ہوتی ہے
مجھی شوریدہ سر سے رونقیں تھیں بزمِ عالم میں
انھیں بھی آج محفل میں کمی معلوم ہوتی ہے
میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں
انھیں دل کی لگی اک دل لگی معلوم ہوتی ہے
محبت ہے محبت پھونک ڈالے گی دو عالم کو
یہ چنگاری سی جو دل میں دبی معلوم ہوتی ہے
اک ایسا وقت بھی آتا ہے دورانِ محبت میں
کہ نغمہ نوحہ اور شادی غمی معلوم ہوتی ہے
یہ اڑ اڑ کر جو گرتے جا رہے ہیں روز طیارے
مجھے تو یہ سزائے سرکشی معلوم ہوتی ہے
جو میں دن رات یوں گردن جھکائے بیٹھا رہتا ہوں
تری تصویر سی دل میں کھنچی معلوم ہوتی ہے
مگر مجذوبؔ تو محوِ خیالِ زلفِ پیچاں ہے
تری جو بات ہے الجھی ہوئی معلوم ہوتی ہے
بنا رکھی ہے مجذوبؔ اپنی حالت کیوں خراب ایسی
تری صورت تو اچھی اور بھلی معلوم ہوتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام