اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے

غزل| گوپال داس نیرجؔ انتخاب| بزم سخن

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
جس میں انسان کو انسان بنایا جائے
جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں جہلم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جا کے نہایا جائے
پیار کا خون ہوا کیوں یہ سمجھنے کے لئے
ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے
میرے دکھ درد کا تجھ پر ہو اثر کچھ ایسا
میں رہوں بھوکا تو تجھ سے بھی نہ کھایا جائے
جسم دو ہو کے بھی دل ایک ہوں اپنے ایسے
میرا آنسو تیری پلکوں سے اٹھایا جائے

گیت انمن ہے غزل چپ ہے رباعی ہے دکھی
ایسے ماحول میں نیرجؔ کو بلایا جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام