مدت میں اُس جانِ حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا

غزل| جان نثار اخترؔ انتخاب| بزم سخن

مدت میں اُس جانِ حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا
جتنے بھی بدنام ہوئے ہم اتنا اُس نے پیار کیا
اُس سے تھوڑی آنکھ لڑا کر سوچا تھا بچ نکلیں گے
اُس کی ترچھی نظروں نے تو دل پر سیدھا وار کیا
پوچھتے کیا ہو پہلے پہلے کس سے ہم کو پیار ہوا
جس نے ہم کو پیار سکھایا ، پہلے اس سے پیار کیا
پہلے بھی خوش چشموں میں ہم چوکنا سے رہتے تھے
تیری سوئی آنکھوں نے تو اور ہمیں ہشیار کیا
جاتے جاتے کوئی ہم سے اچھے رہنا کہہ تو گیا
پوچھیں لیکن پوچھنے والے کس نے یہ بیمار کیا
تم سے پہلے ایک نے ہم کو جینے کے سو لطف دیے
تم نے وہ لطف بھی چھینے جینا بھی دشوار کیا
تیرے بِن اب شعر بھی کہنا ہم کو مشکل ہوتا ہے
اتنا کیوں مجبور بنایا اتنا کیوں لاچار کیا
قطرہ قطرہ صرف ہوا ہے عشق میں اپنے دل کا لہو
شکل دکھائی تب اس نے جب آنکھوں کو خوں بار کیا
ہم پر کتنی بار پڑے یہ دورے بھی تنہائی کے
جو بھی ہم سے ملنے آیا ملنے سے انکار کیا
عشق میں کیا نقصان نفع ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے ساری عمر ہی یارو دل کا کاروبار کیا
محفل پر جب نیند سی چھائی تھک کے سب خاموش ہوئے
ہم نے تب کچھ شعر سنائے لوگوں کو بیدار کیا
اب تم سوچو اب تم جانو جو چاہو اب رنگ بھرو
ہم نے تو اک نقشہ کھینچا اک خاکہ تیار کیا

دیس سے جب پردیس سدھارے ہم پر یہ بھی وقت پڑا
نظمیں چھوڑیں غزلیں چھوڑیں گیتوں کا بیوپار کیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام