رنج و غم مانگے ہے اندوہ و بلا مانگے ہے

غزل| جان نثار اخترؔ انتخاب| بزم سخن

رنج و غم مانگے ہے اندوہ و بلا مانگے ہے
دل وہ مجرم ہے کہ خود اپنی سزا مانگے ہے
چپ ہے ہر زخمِ گلو چپ ہے شہیدوں کا لہو
دستِ قاتل ہے جو محنت کا صلہ مانگے ہے
تو بھی اک دولتِ نایاب ہے پر کیا کہیئے
زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے
کھوئی کھوئی یہ نگاہیں یہ خمیدہ پلکیں
ہاتھ اٹھائے کوئی جس طرح دعا مانگے ہے
راس اب آئے گی اشکوں کی نہ آہوں کی فضا
آج کا پیار نئی آب و ہوا مانگے ہے
بانسری کا کوئی نغمہ نہ سہی چیخ سہی
ہر سکوتِ شبِ غم کوئی صدا مانگے ہے
لاکھ منکر سہی پر ذوقِ پرستش میرا
آج بھی کوئی صنم کوئی خدا مانگے ہے
سانس ویسے ہی زمانے کی رکی جاتی ہے
وہ بدن اور بھی کچھ تنگ قبا مانگے ہے
دل ہر اک حال سے بیگانہ ہوا جاتا ہے
اب توجہ ، نہ تغافل ، نہ ادا مانگے ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام