خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں دلوں میں اُلفت نئی نئی ہے

غزل| شبینہ ادیب انتخاب| بزم سخن

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں دلوں میں اُلفت نئی نئی ہے
ابھی تکلف ہے گفتگو میں ابھی محبت نئی نئی ہے
ابھی نہ آئے گی نیند تم کو ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا
ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے
بہار کا آج پہلا دن ہے چلو چمن میں ٹہل کے آئیں
فضا میں خوشبو نئی نئی ہے گلوں میں رنگت نئی نئی ہے
جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے
ذرا سا قدرت نے کیا نوازا کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں
ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں ابھی تو شہرت نئی نئی ہے
ابھی میں کیسے کہوں شبینہؔ وفا نبھائیں گے وہ ہمیشہ
کہ میری دل کی زمیں پہ اُن کی ابھی حکومت نئی نئی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام