اِتنا نہ اپنے جامہ سے باہر نکل کے چل

غزل| بہادر شاہ ظفرؔ انتخاب| بزم سخن

اِتنا نہ اپنے جامہ سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
کم ظرف پُرغرور ذرا اپنا ظرف دیکھ
مانند جوشِ خُم نہ زیادہ اُبل کے چل
فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوزِ دل کے ساتھ
اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل
یہ غول وش ہیں اِن کو سمجھ تو نہ رہ نما
سائے سے بچ کے اہلِ فریب و دغل کے چل
اَوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ تُو کچھ اپنے بل پہ چل
پھر آنکھیں بھی تو دی ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم
کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل
کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل
ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو
پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل
بلبل کے ہوش نکہتِ گل کی طرح اُڑا
گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل
گر قصد سوئے دل ہے ترا ائے نگاہِ یار
دوچار تیر پیک سے آگے اجل کے چل

جو امتحان طبع کرے اپنا ائے ظفؔر
تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام