تعارف شاعر

poet

بہادر شاہ ظفرؔ

زبانِ اردو کے بلند پایہ و مایہ ناز شاعر جناب بہادر شاہ ظفرؔ 24/ اکتوبر 1775ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، آپ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار تھے۔

آپ کا پورا نام ابو المظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی تھا اور آپ معین الدین اکبر شاہ ثانی کے فرزند اکبر تھے ، اردو زبان میں "ظفرؔ"  اور بھاشا اور دوسری زبانوں کی شاعری میں "شوقؔ/رنگؔ" آپ کا تخلص تھا۔

آپ کی تعلیم بھی شہزادوں کی ہی طرح ہوئی ، جناب حافظ محمد خلیل صاحب نے کلام مجید پڑھایا اور اتالیق کے فرائض جناب حافظ ابراہیم صاحب نے انجام دئے جنہوں نے شہزادے کو فارسی انشاء پردازی اور عربی کی تعلیم سے سرفراز کیا ، آپ کے دادا شاہ عالم ثانی ایک شاعر تھے اور آفتابؔ تخلص کیا کرتے تھے اور آپ کے والد اکبر شاہ ثانی بھی خود شاعر تھے اور شعاعؔ تخلص کیا کرتے تھے ، انہی  کی زیرسرپرستی آپ کی ابتدائی تعلیم ہوئی ، چونکہ وراثتاً شعر و شاعری آپ کی فطرت میں ودیعت تھی اور آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی قلعہ معلّی کے صاف ستھرے اور خوشگوار ماحول میں ہو رہی  تھی جو کہ ان دنوں شعر و سخن کا مرکز تھا اسی لئے تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ شعر و سخن کا ذوق و شوق بھی بڑھتا گیا جس کی وجہ سے بڑی کم عمری ہی میں آپ نےمشقِ سخن کا آغاز کیا ، سونے پر سہاگہ شاہی درباری ماحول میں شاہ نصیر، میر عزت اللہ عشقؔ ، شیخ ابراہیم ذوقؔ ، حکیم مومن خاں مومنؔ ، نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ اور مرزا غالبؔ  جیسے بلند پایہ استاد شعراء کی صحبت بھی نصیب ہوئی ، یہاں تک کہ آگے چل کرآپ کی سرپرستی میں اس وقت کے بلند پایہ استاد شعراء کی شعر و شاعری کی محفلیں منعقد ہونے لگیں۔

شعر و شاعری کے اس سفر میں آپ  نے گرچہ گذرے دور کے نامور شعراء  مرزا مظہر جانِ جاناں ، میر دردؔ ، مرزا رفیع سوداؔ یا  پھر کم ازکم ہم عصر میرتقی میرؔ جیسے شعراء کے کلام کا مطالعہ کیا ہو یا اپنے معاصر بلند پایہ شعراء کی مصاحبت کی ہو یا پھر مختلف ادوار میں میر عزت اللہ عشقؔ ، شاہ نصیر، محمد ابراہیم ذوقؔ اور مرزا غالبؔ جیسے اساتذۂ فن سے اصلاح لی ہو یا آپ نے اپنی متعدد غزلیں انہی معروف شعراء کی زمین میں کہی ہوں لیکن ایسا نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی کا رنگ آپ نے قبول کیا ہے بلکہ آپ کا اندازِ سخن اپنی جگہ انفرادیت لیے ہوئے ہی دکھائی دیتا ہے ، وجہ یہ کہ جب زوال پذیر مغلیہ سلطنت کا  تخت و تاج وراثت در وراثت آپ کے حصے میں آیا اور مختلف ریشہ دوانیوں کی وجہ سے آپ نے دولت و حکومت کی جو ذلت و رسوائی ، کارگاہ ِ حیات کی  نفسا نفسی اور بے ثباتی ، اپنوں کی بے حسی و بے رخی دیکھی اور آپ ایک شہزادہ سے بادشاہ بن گئے بلکہ اس عظیم سلطنت کا آخری تاجدار بن گئے جب کہ اصلاً اب آپ ایک  شکستہ دل شکستہ حال انسان سے زیادہ کچھ نہ تھے ، انہی مصائب و آلام  نے آپ کو انتہائی مایوس بے بس اور درویش صفت بنا دیا اور یہی رنگ آپ کے طرزِ تحریر تقریر پر چھا گیا جس نے اردو ادب و شاعری کوایک بہترین خزانہ عطا کیا ، دراصل آپ کے چار دیوان ہی آپ کی  زندگی کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔

آپ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے لیکن اس کے علاوہ ہرصنفِ سخن حمد ، نعتِ رسول مقبول ، رباعی ، مثلث ، مخمس ، قطعات ، سہرے ، سلام ، مرثیہ ، دوہے ، ٹھمریاں ، مسدس ، تضمین میں طبع آزمائی بھی کی ہے ، اسی طرح اردو اور فارسی کے علاوہ ہندی اور پنجابی میں بھی طبع آزمائی کی ہے ، آپ شاعری کے ساتھ ساتھ فن خطاطی کے ماہر بھی تھے  اور یہ شوق بھی دادا کی تربیت کے نتیجہ میں حاصل ہوا تھا۔

آپ 1837ء میں تریسٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھے تھے اور 20/ سال حکومت کرنے کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور برما کی راجدھانی رنگون میں قید کر دیے گئے جہاں 5/ سال تک اسیری اور نظر بندی کے مصائب جھیل کر نہایت بے کسی کے عالم میں 7/ نومبر 1862ء بروز جمعہ وفات پائی ، آپ کا مزار رنگوں میں ہے اور اس کی خستہ حالی آج بھی ان کے دردناک انجام کی داستان سنا رہی ہے۔

تصویر / رئیس جعفری اکیڈمی


بہادر شاہ ظفرؔ کا منتخب کلام