پاؤں کے کانٹے روح کے نشتر جیون جیون بکھرے ہیں

غزل| فضاؔ ابن فیضی انتخاب| بزم سخن

پاؤں کے کانٹے روح کے نشتر جیون جیون بکھرے ہیں
میرے عہد کے انساں ہيں یا زخم کے خرمن بکھرے ہیں
ہمت ہو تو جھانک کے دیکھو ہستی کی محرابوں سے
وقت ہے وہ دیوار کہ جس میں درد کے روزن بکھرے ہیں
نغموں پر سر دھننے والے ساز کا سینہ چیر کے دیکھ
گیت کا چنچل روپ بدل کر روح کے شیون بکھرے ہیں
جب بھی تیری یاد کا موسم دل کو چھو کر گزرا ہے
میری پیاری آنکھوں سے جلتے ہوئے ساون بکھرے ہیں
لٹ جائے گی جسم کی چاندی سیم برو ہشیار رہو
شہر کی خوابیدہ گلیوں میں جاگتے رہزن بکھرے ہیں
لوگ تمہارے عارض و لب سے کر لیں گے تعبیر انہیں
کچھ ان دیکھے جلوے ہیں جو چلمن چلمن بکھرے ہیں
موتی جیسے جگمگ کرتے پتھر جیسے بھاری لوگ
راہوں میں کنکر کی طرح حالات کے کارن بکھرے ہیں
مجھ سے میرے دورِ جنوں کے ناگفتہ حالات نہ پوچھ
جلتے آنسو بھیگے شعلے دامن دامن بکھرے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام