ہے بھرے درختوں کے باوجود بن تنہا

غزل| مظہرؔ امام انتخاب| بزم سخن

ہے بھرے درختوں کے باوجود بن تنہا
روز و شب کے ہنگامے پھر بھی انجمن تنہا
رتجگوں کے وہ ساتھی کس جہاں میں بستے ہیں
کیا ہمیں تک آئے گی صبح کی کرن تنہا
زلف کی حسیں راتیں کس پہ سایہ افگن ہیں
میرے گھر تک آئی ہے بوئے یاسمن تنہا
تیری یاد نے اٹھ کر مجھ سے کل یہ پوچھا تھا
اپنے غم کے صحرا میں جا سکو گے تن تنہا
کچھ کمی نہ تھی دل کی کوچۂ محبت میں
ایک ہم ہی آئے تھے لے کے جان و تن تنہا
ہائے یہ شبِ وعدہ دل کا حال کیا کہئے
حجلۂ عروسی میں جس طرح دلہن تنہا
تھی خدا کی شرکت بھی ورنہ بوجھ نفرت کا
کس طرح اٹھا پائے شیخ و برہمن تنہا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام