اہلِ دل اہلِ خرد اہلِ نظر سب سو گئے

غزل| حمایت علی شاعرؔ انتخاب| بزم سخن

اہلِ دل اہلِ خرد اہلِ نظر سب سو گئے
سب کو بیداری کا دعویٰ تھا مگر سب سو گئے
صبح کی خاطر رہے جو رات بھر مشعل بکف
ایسی نیند آئی کہ ہنگامِ سحر سب سو گئے
اس کو کیا کہیے کہ احساسِ زیاں کے باوجود
راستے میں راہروان و راہبر سب سو گئے
کارواں خطرے میں ہے کچھ دیر میں ہی جاگ لوں
کون اس کا پاسباں ہوگا اگر سب سو گئے

اس جگہ پر رہزنوں کا خوف پہلے ہی سے تھا
لاکھ چلاتا رہا شاعرؔ مگر سب سو گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام