ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

غزل| ناصرؔ کاظمی انتخاب| بزم سخن

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
ائے دل! کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے ائے المِ حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گذری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گذر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی

ائے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام