تیرے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا

غزل| اعتبارؔ ساجد انتخاب| بزم سخن

تیرے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا
یہی عمر تھی میرے ہم نشیں کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا
میں سمجھ رہا ہوں تیری کسک ترا میرا درد ہے مشترک
اسی غم کا تو بھی اسیر ہے اسی دکھ کا میں بھی شکار تھا
فقط ایک دھن تھی کہ رات دن اسی خواب زار میں گم رہیں
وہ سرور ایسا سرور تھا وہ خمار ایسا خمار تھا
کبھی لمحہ بھر کی بھی گفتگو میری اس کے ساتھ نہ ہو سکی
مجھے فرصتیں نہیں مل سکیں وہ ہوا کے رتھ پہ سوار تھا
ہم عجیب طرز کے لوگ تھے کہ ہمارے اور ہی روگ تھے
میں خزاں میں اس کا تھا منتظر اسے انتظارِ بہار تھا
اسے پڑھ کے تم نہ سمجھ سکے کہ میری کتاب کے روپ میں
کوئی قرض تھا کئی سال کا کئی رت جگوں کا ادھار تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام