رات کو دن کے سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں

غزل| رئیس فروغؔ انتخاب| بزم سخن

رات کو دن کے سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں
میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں
برسوں بعد اسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے
اور بدن کی ساری چاندی چھپی ہوئی تھی سونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آؤ تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو ادھر ادھر کسی کونے میں

سائے میں سایہ الجھ رہا تھا چاہت ہو کہ عداوت ہو
دور سے دیکھو تو لگتے تھے سورج چاند بچھونے میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام