کچھ سایے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں

غزل| رشیدؔ قیصرانی انتخاب| بزم سخن

کچھ سایے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں
اس شہر میں ورنہ نہ مکیں ہیں نہ مکاں ہیں
ہم خود سے جدا ہو کے تجھے ڈھونڈنے نکلے
بکھرے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں
جاتی ہیں ترے گھر کو سبھی شہر کی سڑکیں
لگتا ہے کہ سب لوگ تری سمت رواں ہیں
اے موجۂ آوارہ کبھی ہم سے بھی ٹکرا
اک عمر سے ہم بھی سر ساحل نگراں ہیں
تو ڈھونڈ ہمیں وقت کی دیوار کے اس پار
ہم دور بہت دور کی منزل کا نشاں ہیں
سمٹے تھے کبھی ہم تو سمائے سرِ مژگاں
پھیلے ہیں اب ایسے کہ کراں تا بہ کراں ہیں
اک دن ترے آنچل کی ہوا بن کے اڑے تھے
اس دن سے زمانے کی نگاہوں سے نہاں ہیں
توڑو نہ ہمارے لیے آواز کا آہنگ
ہم لوگ تو اک ڈوبتے لمحے کی فغاں ہیں

وہ جن سے فروزاں ہوا اک عالم امکاں
وہ چاند صفت لوگ رشیدؔ آج کہاں ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام