محبت میں شبِ تاریکِ ہِجراں کون دیکھے گا

غزل| مخمورؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

محبت میں شبِ تاریکِ ہِجراں کون دیکھے گا
ہمیں دیکھیں گے یہ خوابِ پریشاں کون دیکھے گا​
اِن آنکھوں سے تجلی کو درخشاں کون دیکھے گا ​
اُٹھا بھی دو نقاب رُوۓ تاباں کون دیکھے گا ​
یہی اِک رات ہے بس کائناتِ زِندگی اپنی
سَحر ہوتی ہُوئی اے شام ہِجراں کون دیکھے گا
چمن میں گِر رہی ہیں بجلیاں شاخِ نشیمن پر
یہاں تک اپنی بربادی کا ساماں کون دیکھے گا
بسانا ہی پڑے گا اِک نہ اِک دِن خانۂ دِل کو
بنے پِھرتے ہو یوسف شامِ زِنداں کون دیکھے گا ​
حقیقت میں تقاضا بھی یہی ہے پردہ داری کا
رہو تم آنکھ میں پردوں میں پنہاں کون دیکھے گا
کچھ ایسا ہو دمِ آخِر نہ آئیں وہ عیادت کو
اُنہیں اپنے کئے پر یوں پشیماں کون دیکھے گا
مجھی پر آئے گا اِلزام مری پائمالی کا
تِری رفتار کو اے فتنہ ساماں کون دیکھے گا
جو غنچے کل کھلے تھے آج وہ مرجھاۓ جاتے ہیں
مری نظروں سے رنگِ بزمِ امکاں کون دیکھے گا
یہی اب بھی صدائیں آتی ہیں وادئ ایمن سے
کہاں ہیں طالب دیدارِ جاناں کون دیکھے گا
نفس کے ساتھ ہی قیدِ تعلق ٹوٹ جاتی ہے
پلٹ کر پِھر سوۓ گورِ غریباں کون دیکھے گا
عذابِ حشر سے تو کیوں ڈراتا ہے مجھے واعظ​
تجھے معلوم بھی ہے فردِ عصیاں کون دیکھے گا
یہ دنیا ہے ہنسا کرتی ہے اوروں کی مصیبت پر
ترا رونا اے چشمِ گریاں کون دیکھے گا
چلو مخمورؔ تنہائی میں شغلِ میکشی ہوگا
چھپا کر لے چلو پینے کا ساماں کون دیکھے گا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام