ساز بے مطرب و مضراب نظر آتے ہیں

غزل| جان نثار اخترؔ انتخاب| بزم سخن

ساز بے مطرب و مضراب نظر آتے ہیں
پھر بھی نغمے ہیں کہ بے تاب نظر آتے ہیں
وہی محفل ہے وہی رونقِ محفل لیکن
کتنے بدلے ہوئے آداب نظر آتے ہیں
کیا تماشہ ہے کہ غنچے تو ہیں پژمردہ و زرد
خار آسودہ و شاداب نظر آتے ہیں
قافلہ آج یہ کس موڑ پہ آ پہنچا ہے
اب قدم اور بھی بے تاب نظر آتے ہیں
کل یہی خواب حقیقت میں بدل جائیں گے
آج جو خواب فقط خواب نظر آتے ہیں
کون سا مہرِ درخشاں ہے ابھرنے والا
آئینے دل کے شفق تاب نظر آتے ہیں
مسکراتے ہوئے فردہ کے افق پر اخترؔ
ایک کیا سیکڑوں مہتاب نظر آتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام