رات دن چین ہم ائے رشکِ قمر رکھتے ہیں

غزل| لالہ مدھو رام جوہؔر انتخاب| بزم سخن

رات دن چین ہم ائے رشکِ قمر رکھتے ہیں
شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
ڈھونڈ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتے
کیا کہوں آپ دلِ غیر میں گھر رکھتے ہیں
اشک قابو میں نہیں راز چھپاؤں کیوں کر
دشمنی مجھ سے مرے دیدۂ تر رکھتے ہیں
کیسے بے رحم ہیں صیاد الہی توبہ!
موسمِ گل میں مجھے کاٹ کے پر رکھتے ہیں
کون ہیں ہم سے سوا ناز اٹھانے والے
سامنے آئیں جو دل اور جگر رکھتے ہیں
دل تو کیا چیز ہے پتھر ہو تو پانی ہو جائے
مرے نالے بھی ابھی اتنا اثر رکھتے ہیں
چار دن کے لئے دنیا میں لڑائی کیسی
وہ بھی کیا لوگ ہیں آپس میں شرر رکھتے ہیں
حالِ دل یار کو محفل میں سناؤں کیوں کر
مدعی کان اِدھر اور اُدھر رکھتے ہیں
جلوۂ یار کسی کو نظر آتا کب سے
دیکھتے ہیں وہی اس کو جو نظر رکھتے ہیں

عاشقوں پر ہے دکھانے کو عتاب ائے جوہؔر
دل میں محبوب عنایت کی نظر رکھتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام