چاک گریباں دیکھ کے ہم کو لوگو کیوں حیرانی ہے

غزل| کیفؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

چاک گریباں دیکھ کے ہم کو لوگو کیوں حیرانی ہے
فصلِ بہاراں نام ہے جس کا فطرت کی عریانی ہے
آنکھ میں جھانکو غم کو ٹٹولو دلداری سے بات کرو
ہنستے چہرے پر مت جاؤ دل میں بڑی ویرانی ہے
پلکوں پہ کچھ تارے چمکے زخمِ تمنا جاگ اٹھا
ایسی مہکی یاد تمہاری جیسے رات کی رانی ہے
آنکھ میں مستی مدرا جیسی اور بدن ہے چندن سا
دیکھ کے سندر روپ کسی کا آنکھوں کو حیرانی ہے
چلتے پھرتے لوگوں میں اب جینے کا احساس نہیں
گاؤں کا پنگھٹ سونا سا ہے شہروں میں ویرانی ہے
کیفؔ تغیر کا قائل ہوں اور یہ میں نے سوچا ہے
حسن بھی فانی عشق بھی فانی جسم مگر لافانی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام