حرفِ بے صوت پہ ہم طرحِ نوا رکھتے ہیں

غزل| ایازؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

حرفِ بے صوت پہ ہم طرحِ نوا رکھتے ہیں
اپنا آہنگ زمانے سے جدا رکھتے ہیں
اِس توجّہ سے نہ دیکھو کہ بکھر کر رہ جائیں
ہم کہ شیرازۂ ہستی بہ ہوا رکھتے ہیں
رنجِ پرکیف عطا ہو کہ نشاطِ بے رنگ
دِل کو ہر حال میں راضی بہ رضا رکھتے ہیں
اپنے اشکوں کی رسائی ہے ترے دامن تک
یہ وہ رہرو ہیں جو منزل کا پتہ رکھتے ہیں
گُنگ لفظوں کو سکھاتے ہیں اسالیبِ سخن
اہلِ فن طبعِ رواں ذہنِ رسا رکھتے ہیں
ایک وہ جن کے لئے دفتر کونین بھی کم
ایک ہم لب پہ فقط حرفِ دُعا رکھتے ہیں

خواب دیکھا ہے تو تعبیر بھی دیکھیں گے ایازؔ
ہم توقّع بھی بڑی دِل بھی بڑا رکھتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام