تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

غزل| قیصؔر الجعفری انتخاب| بزم سخن

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہے تو بھول جاؤ ہمیں
تمہیں بھلانے میں شاید ہمیں زمانہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ لگے
اسی لئے تو کھلائے ہیں پھول صفحوں پر
ہمیں جو زخم لگے ہیں وہ دوستانہ لگے
وہ اک ستارہ کہ جو راستہ دکھائے ہمیں
وہ اک اشارہ کہ جو حرف محرمانہ لگے
نہ جانے کیا ہے کسی کی اداس ٓانکھوں میں
وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے
ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا
دعا کرو کسی دشمن کی بد دعا نہ لگے
نہ جانے کب سے کوئی میرے ساتھ ہے قیصرؔ
جو اجنبی نہ لگے اور آشنا نہ لگے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام