باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے
ہم سے یہ پوچھنا کبھی ہم گھر بھی آئیں گے
خود آہنی نہیں ہو تو پوشش ہو آہنی
یوں شیشہ ہی رہو گے تو پتھر بھی آئیں گے
یہ دشتِ بے طرف ہے گمانوں کا موج خیز
اس میں سراب کیا کہ سمندر بھی آئیں گے
آشفتگی کی فصل کا آغاز ہے ابھی
آشفتگاں پلٹ کے ابھی گھر بھی آئیں گے
دیکھیں تو چل کے یار طلسماتِ سمتِ دل
مرنا بھی پڑ گیا تو چلو مر بھی آئیں گے
یہ شخص آج کچھ نہیں پر کل یہ دیکھیو
اس کی طرف قدم ہی نہیں سر بھی آئیں گے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام