تم اسی کو وجہِ طرب کہو ہم اسی کو باعثِ غم کہیں

غزل| قمرؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

تم اسی کو وجہِ طرب کہو ہم اسی کو باعثِ غم کہیں
وہی اک فسانۂ عشق ہے کبھی تم کہو کبھی ہم کہیں
کبھی ذکرِ مہر و وفا کریں کبھی داستانِ الم کہیں
بڑے اعتماد سے وہ سنیں بڑے اعتماد سے ہم کہیں
جسے انقلاب نہ چھو سکا اسے تو نے خود ہی مٹا دیا
وہی ایک دل کا صنم کدہ جسے آبروئے حرم کہیں
وہی دل خراش سی اک نظر جو بقدرِ ذوق ہے نیشتر
اسے کوئی طرزِ ستم کہے ہم ادائے پرسشِ غم کہیں
تجھے یہ خبر نہیں ساقیا کہ ہے میکشوں کا مقام کیا
یہ انہی کی وسعتِ ظرف ہے کہ خود اپنے ظرف کو کم کہیں
ہمہ آرزو ، ہمہ بے خودی ، ہمہ بندگی ، ہمہ بے کسی
یہی چند لمحوں کی زندگی اِسے کیوں نہ فرصتِ غم کہیں

قمرؔ اس سے ہم کو غرض ہی کیا کہ جدا جدا ہے معاملہ
جو خدا کہیں وہ خدا کہیں جو صنم کہیں وہ صنم کہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام