روشنی ختم ہوئی اہلِ نظر باقی ہیں

غزل| محسنؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

روشنی ختم ہوئی اہلِ نظر باقی ہیں
جنہیں دستار میسر ہے وہ سر باقی ہیں
کاٹ لیتے ہیں کبھی شاخ کبھی گردنِ دوست
اب بھی چند ایک روایاتِ سفر باقی ہیں
اپنے ہمسایوں کا غم بھی ہے اور اپنا غم بھی
اس تگ و دو میں غنیمت ہے کہ گھر باقی ہیں
سخت جانی کی بھلا اِس سے بڑی کیا ہو مثال
بے شجر شاخ ہے اور برگ و ثمر باقی ہیں

ہو مبارک تمہیں تخلیق پہ تمغے کی سند
میرے حصے کے ابھی زخمِ ہنر باقی ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام