کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در

غزل| ناصرؔ کاظمی انتخاب| بزم سخن

کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دِیار ہے دوستو! جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر
جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دِیا
جو گراں تھے سینۂ چاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بے کسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو!
تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اسی درخت کا ہوں ثمر

یہ بجا ہے آج اندھیرا ہے ذرا رت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ و بَر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام