لوگ جو صاحبِ کردار ہوا کرتے تھے

غزل| رخسارؔ ناظم آبادی انتخاب| قتیبہ جمال

لوگ جو صاحبِ کردار ہوا کرتے تھے
بس وہی قابلِ دستار ہوا کرتے تھے
یہ الگ بات وہ تھا دورِ جہالت لیکن
لوگ ان پڑھ بھی سمجھ دار ہوا کرتے تھے
سامنے آ کے نبھاتے تھے عداوت اپنی
پیٹھ پیچھے سے کہاں وار ہوا کرتے تھے
جن قبیلوں میں یہاں آج دئے ہیں روشن
ان قبیلوں کے تو سردار ہوا کرتے تھے
تب عدالت سے رعایت نہیں مل پاتی تھیں
تب گنہ گار گنہ گار ہوا کرتے تھے
کیا زمانہ تھا مہکتی تھیں وہ کیاری گھر کی
گھر کے آنگن گل و گلزار ہوا کرتے تھے
قید مذہب کی نہ تھی کل کے پڑوسی دونوں
ایک دوجے کے مدد گار ہوا کرتے تھے
گھر کے سب لوگ نبھاتے تھے خوشی سے جن کو
گھر کے ہر فرد کے کردار ہوا کرتے تھے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام