میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون
تو نہیں ہوتا تو میری جستجو کرتا ہے کون
کس کا خنجر ہے جو کر دیتا ہے سینے کو دو نیم
پھر پشیمانی میں زخمِ دل رفو کرتا ہے کون
اس خرابے میں بگولہ سی پِھرے ہے کس کی یاد
اس دیارِ رفتگاں میں ہاؤ ہو کرتا ہے کون
خوف کس کا ہے کہ اپنے آپ سے چھپتا پھروں
ناگہاں پھر مجھ کو میرے رو برو کرتا ہے کون
کون سا موسم چرا لیتا ہے غنچوں کی چٹک
نغمہ پیراؤں کو سرمہ در گلو کرتا ہے کون
کون پی جاتا ہے آخر مرے حصے کی شراب
میں نہیں ہوتا تو پھر خالی سبو کرتا ہے کون



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام