تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہوگئے

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہوگئے
پھر جو بھی در ملا ہے اُسی در کے ہوگئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہوگئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہوگئے
ائے یادِ یار! تجھ سے کریں کیا شکایتیں
ائے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہوگئے
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر ہوگئے
اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
اب کے گئے تو کُوئے ستم گر کے ہوگئے
روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فرازؔ تم
دیکھے تو کتنے شہر سمندر کے ہوگئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام