حرفِ ریشم نہیں تلوار بھی ہو سکتے ہیں

غزل| صبیحہ سلطانہ صباؔ انتخاب| بزم سخن

حرفِ ریشم نہیں تلوار بھی ہو سکتے ہیں
یہ جو مظلوم ہیں خونخوار بھی ہو سکتے ہیں
ہم کسی عہدِ وفا کے لئے پابند نہیں
ہم ترے نام سے بیزار بھی ہو سکتے ہیں
ہو مقدر میں اندھیرا یہ ضروری تو نہیں
خوابِ غفلت سے وہ بیدار بھی ہو سکتے ہیں
کسی مظلوم کے جھلسے ہوئے چہرے کی طرح
یہ کسی اور کے رخسار بھی ہو سکتے ہیں
وہ جو صدیوں سے زمانے میں غم کے پالے ہیں
وہ خوشی سے کبھی سرشار بھی ہو سکتے ہیں
میرے شہروں میں قیامت سی مچانے والے
ہاتھ باندھے پسِ دیوار بھی ہو سکتے ہیں
آج بے وقعت و بے در ہیں پریشان سے لوگ
کل یہی وقت کے سردار بھی ہو سکتے ہیں
نکھرے نکھرے ہوئے خوش رنگ گلابوں کی طرح
میرے گلشن کی یہ مہکار بھی ہو سکتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام