دل کے جلتے ہوئے زخموں کا مداوا بن کر

غزل| ممتاز راشدؔ انتخاب| بزم سخن

دل کے جلتے ہوئے زخموں کا مداوا بن کر
پھول مہکے ہیں ترے ہاتھ کا سایہ بن کر
میں ترے جسم کو چھوتے ہوئے یوں ڈرتا ہوں
تشنگی اور بڑھا دے گا تو دریا بن کر
کیا ڈرائیں گے مقدر کے اندھیرے تجھ کو
میں چمکتا ہوں ترے ہاتھ پہ ریکھا بن کر
وقت ہے برف کی دیوار تو کیسے پگھلے
خوں بھی آنکھوں سے ٹپکتا نہیں شعلہ بن کر
ہاتھ آیا نہیں کچھ سنگِ ملامت کے سوا
شہر میں دیکھ لیا ہم نے تماشا بن کر
حادثہ کوئی ہو بجھتی نہیں آنکھوں کی چمک
جسم میں پھیل گیا ہے وہ اجالا بن کر
آئینے صاف تھے کس کس کو وہاں جھٹلاتا
ہر سیاہی نظر آئی مرا چہرہ بن کر
تشنگی لاکھ سہی گھر سے نہ نکلو راشدؔ
رات سینے میں اتر جائے گی صحرا بن کر



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام