یہ جو صہبائے دل ربائی ہے

غزل| شاعرؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

یہ جو صہبائے دل ربائی ہے
کتنے شیشوں سے چھن کے آئی ہے
خونِ دل بھر کے جام میں رکھو
موسمِ گل کی رونمائی ہے
راہ میں بے سبب نہیں کانٹے
احترامِ برہنہ پائی ہے
گل میں رہ کر ہے بوئے گل آزاد
ہر اسیری میں اک رہائی ہے
بندگی وہ مقام ہے کہ جہاں
خود شناسی بھی خود نمائی ہے
تیرا غم درمیاں میں تھا ورنہ
زندگی کس کو راس آئی ہے
تیرے رخ کی بہار کے آگے
پھول اک کاسۂ گدائی ہے
اُس نظر کے حضور اے شاعرؔ
کچھ نہ کہنا بھی لب کشائی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام