قدم اٹھنے نہیں پائے قرابت گھیر لیتی ہے

غزل| سہیلؔ غازی پوری انتخاب| بزم سخن

قدم اٹھنے نہیں پائے قرابت گھیر لیتی ہے
جو سچ پوچھو تو بچوں کی محبت گھیر لیتی ہے
سمٹنا چاہتے ہیں پاؤں جس چادر کے گوشے میں
اسی گوشے کے ان دیکھی ضرورت گھیر لیتی ہے
سلگ اٹھتی ہیں شاخیں خشک پتے بین کرتے ہیں
جہاں پیڑوں کو موسم کی عداوت گھیر لیتی ہے
کبھی پتھر اٹھاتا ہوں تو پرکھے یاد آتے ہیں
مرے ہاتھوں کو خود میری شرافت گھیر لیتی ہے
بہ زعمِ خود جو بن جاتے ہیں حرف و صوت کے مالک
انہیں لوگوں کو اکثر ان کی شہرت گھیر لیتی ہے
کوئی کہتا رہے کچھ بھی جواباً کچھ نہیں کہتا
بس ایسے میں سہیؔل اکثر مروت گھیر لیتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام