پیاسا ہوں ریگ زار میں دریا دکھائی دے

غزل| شاذؔ تمکنت انتخاب| بزم سخن

پیاسا ہوں ریگ زار میں دریا دکھائی دے
جو حال پوچھ لے وہ مسیحا دکھائی دے
ہر تازہ واردِ خمِ گیسو کو دیکھ کر
مجھ کو پھر اپنا عہدِ تمنا دکھائی دے
قربت کی آنچ آئی کہ جلنے لگا بدن
دوری کا دور آج چمکتا دکھائی دے
لہجے کے لوچ میں ہے گناہوں کی دل کشی
آنکھوں میں معبدوں کا سویرا دکھائی دے
ہر زاویے کو جسم کے اہلِ نظر کی پیاس
ہر خط ترے بدن کا سراپا دکھائی دے
چبھتے ہوئے لباس کا چھنتا ہوا جمال
بت گر نقابِ سنگ الٹتا دکھائی دے
پڑتی ہے سات رنگوں پہ تیرے بدن کی چوٹ
جو رنگ تو پہن لے وہ گہرا دکھائی دے
کیا کیا حقیقتوں پہ ہیں پردے پڑے ہوئے
تو ہے کسی کا اور کسی کا دکھائی دے
خلوت کی انجمن ہے وفاؤں کا سلسلہ
کیا ذکرِ عشق حسن بھی تنہا دکھائی دے
اس آس نے تو اپنا سفینہ ڈبو دیا
طوفاں تھمے تو کوئی جزیرہ دکھائی دے
دریا پہ آنسوؤں کے تجھے ڈھونڈھتا ہوں میں
پانی پہ تیرا نقشِ کفِ پا دکھائی دے
ہر شخص اپنے آپ تعاقب میں ہے رواں
عالم تمام ایک تماشا دکھائی دے
آؤ کہ دیکھ آئیں فراموشیوں کا شہر
ممکن ہے کوئی اپنا پرایا دکھائی دے
مخدومؔ و جامیؔ آہ کہاں کھو کے رہ گئے
ارض دکن میں شاذؔ اکیلا دکھائی دے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام