سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی

غزل| جان نثار اخترؔ انتخاب| بزم سخن

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
ان سے یہی کہہ آئیں کہ اب ہم نہ ملیں گے
آخر کوئی تقریبِ ملاقات بنے گی
اے ناوکِ غم دل میں ہے اک بوند لہو کی
کچھ اور تو کیا ہم سے مدارات بنے گی
یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں
اے عشق ہماری نہ ترے ساتھ بنے گی

یہ کیا ہے کہ بڑھتے چلو بڑھتے چلو آگے
جب بیٹھ کے سوچیں گے تو کچھ بات بنے گی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام