کل رات بزم میں جو ملا گل بدن سا تھا

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

کل رات بزم میں جو ملا گل بدن سا تھا
خوشبو سے اس کے لفظ تھے چہرہ چمن سا تھا
دیکھا اسے تو بول پڑے اس کے خد و خال
پوچھا اسے تو چپ سا رہا کم سخن سا تھا
تنہائیوں کی رت میں بھی لگتا تھا مطمئن
وہ شخص اپنی ذات میں اک انجمن سا تھا
سوچا اسے تو میں کئی رنگوں میں کھو گیا
عالم تمام اس کے حسیں پیراہن سا تھا
جو شاخ شوخ تھی وہ اسی کے لبوں سی تھی
جو پھول کھل گیا وہ اسی کے دہن سا تھا
وہ سادگی پہن کے بھی دل میں اتر گیا
اس کے ہر اک ادا میں عجب بھول پن سا تھا
آساں سمجھ رہے تھے اسے شہر جاں کے لوگ
مشکل تھا اس قدر کے میرے اپنے فن سا تھا
وہ گفتگو تھی اس کی اسی کے لئے ہی تھی
کہنے کو یوں تو میں بھی شریکِ سخن سا تھا

تارے تھے چاندنی میں کہ تہمت کے داغ تھے
محسنؔ کل آسمان بھی میرے کفن سا تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام