ایک سفر منزل بہ منزل ہر قدم سنجیدگی

غزل| ابراہیم اشکؔ انتخاب| بزم سخن

ایک سفر منزل بہ منزل ہر قدم سنجیدگی
زندگی کے ہر ورق پر کی رقم سنجیدگی
موجۂ دردِ نہاں سے میں نے لکھا حرفِ نو
ابتدائے شوق ہی سے تھی نہ کم سنجیدگی
جانے کیسی موج اٹھی ہے سرِ احساسِ جاں
دے رہے ہیں پھر مجھے آنکھوں کے نم سنجیدگی
جا بہ جا چھوڑے نقوشِ عظمتِ عرضِ ہنر
ہے مری آوارگی میں دم بہ دم سنجیدگی

اس جہانِ گمراہی میں غیر سنجیدہ ہیں لوگ
لکھ رہا ہے اشکؔ اپنا ہی قلم سنجیدگی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام