اب دل ہے تیرے غم کا سہارا لئے ہوئے

غزل| صابؔر دہلوی انتخاب| بزم سخن

اب دل ہے تیرے غم کا سہارا لئے ہوئے
قطرہ ہے اپنے ظرف میں دریا لئے ہوئے
اک میں ہی کیا ہوں آپ بھی مجبورِ عشق ہیں
ظاہر میں اختیار کا پردا لئے ہوئے!
کسی کو یقین آئے قیامت کی بات کا
بیٹھے رہیں وہ وعدۂ فردا لئے ہوئے
میں غم کی وادیوں سے گزرتا چلا گیا!
تیری عنایتوں کا سہارا لئے ہوئے
میرے لئے فراق کی شب بھی ہے تابناک
پھرتا ہوں شمعِ داغِ تمنا لئے ہوئے
دیکھے وہ تجھ کو کیا جو تری بزمِ ناز میں
بیٹھا ہو چشمِ شوق کا پردا لئے ہوئے
ہم تاجدارِ عشق ہیں دنیا سے کام کیا
دنیا کے لوگ ہیں غمِ دنیا لئے ہوئے
صابؔر وہ بے نیازِ تمنا رہیں تو کیا
جب میں ہوں اعتبارِ تمنا لئے ہوئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام