صبحِ طرب میری آنکھوں میں خواب کئی لہرائے تھے

غزل| شاہد عشقؔی انتخاب| بزم سخن

صبحِ طرب میری آنکھوں میں خواب کئی لہرائے تھے
شامِ الم کے ساتھی لیکن بڑھتے پھیلتے سائے تھے
ایک تمہارے پیار کی خاطر جگ کے دکھ اپنائے تھے
ہم نے اپنے ایک دیپ سے کتنے دیپ جلائے تھے
صرف جوانی کے کچھ دن ہی عمر کا حاصل ہوتے ہیں
اور جوانی کے یہ دن بھی ہم کو راس نہ آئے تھے
حسن کو ہم نے امر کہا تھا پیار کو سچا جانا تھا
ایک جوانی کے کس بل پر سارے سچ جھٹلائے تھے
اس کے بنا جو عمر گزاری بے مصرف سی لگتی تھی
اس بے مہر سے دل کو لگا کر بھی ہم ہی پچھتائے تھے
بے مہری کی تہمت بھی ہے مہر و مروت والوں پر
اسی ہوا نے مرجھائے ہیں جس نے پھول کھلائے تھے

غرق‌ِ بادۂ‌ ناب ہوئے وہ چاند سے چہرے پھول سے جسم
تم نے جن کی یاد میں عشقؔی جام کبھی ٹکرائے تھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام