مرے مذاقِ سخن کو سخن کی تاب نہیں

غزل| حفیظؔ جالندھری انتخاب| بزم سخن

مرے مذاقِ سخن کو سخن کی تاب نہیں
سخن ہے نالۂ دل نغمۂ رباب نہیں
اگر وہ فتنہ کوئی فتنۂ شباب نہیں
تو حشر میرے لئے وجہِ اضطراب نہیں
نہیں شراب کی پابند بندگی میری
یہ اک نشہ ہے جو آلودۂ شراب نہیں
مجھے ذلیل نہ کر عذرِ لن ترانی سے
یہ اہلِ ذوق کی توہین ہے جواب نہیں
جو کامیابِ محبّت ہو سامنے آئے
میں کامیاب نہیں ہاں میں کامیاب نہیں
قفس میں زمزمہ پیرا ہے روحِ آزادی
صدائے مرغِ نفس ہے نفیرِ خواب نہیں
اُسی کی شرم ہے میری نگاہ کا پردہ
وہ بے حجاب سہی میں تو بے حجاب نہیں
سنا ہے میں نے بھی ذکرِ بہشت و حور و قصور
خدا کا شکر ہے نیّت مری خراب نہیں
سخنورانِ وطن سب ہیں آفتابِ کمال
تو کیوں کہوں کہ میں ذرّہ ہوں آفتاب نہیں
بیانِ درد کو دل چاہیے جنابِ حفیؔظ
فقط زبان یہاں قابلِ خطاب نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام