تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میرے پاس رہو

نظم| شبینہ ادیب انتخاب| بزم سخن

پردیس جانے والے شوہر کی جدائی پر شبینہ ادیب کی زبانی نسوانی جذبات کی ترجمانی

میری امید میرا پیار میری آس رہو
تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میرے پاس رہو
روزی روٹی کے لئے اپنا وطن مت چھوڑو
جس کو سینچا ہے لہو سے وہ چمن مت چھوڑو
جا کے پردیس میں چاہت کو ترس جاؤ گے
ایسی بے لوث محبت کو ترس جاؤ گے
پھول پردیس میں چاہت کا نہیں کھلتا ہے
عید کے دن بھی گلے کوئی نہیں ملتا ہے
تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میرے پاس رہو
میں کبھی تم سے کروں گی نہ کوئی فرمائش
عیش و آرام کی جاگے گی نہ دل میں خواہش
فاطمہ بی بی کی باندی ہوں بھروسہ رکّھو
میں تمہارے لئے جیتی ہوں بھروسہ رکّھو
لاکھ دکھ درد ہوں ہنس ہنس کے گزر کر لوں گی
پیٹ پر باندھ کے پتھر بھی بسر کر لوں گی
تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میرے پاس رہو
تم اگر جاؤ گے پردیس سجا کر سپنا
اور جب آؤ گے چمکا کے مقدّر اپنا
مرے چہرے کی چمک خاک میں مل جائے گی
مری زلفوں سے یہ خوشبو بھی نہیں آئے گی
ہیرے اور موتی پہن کر بھی نہ سج پاؤں گی
سرخ جوڑے میں بھی بیوہ سی نظر آؤں گی
تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میرے پاس رہو
دردِ فرقت غمِ تنہائی نہ سہہ پاؤں گی
میں اکیلی کسی صورت بھی نہ رہ پاؤں گی
مرے دامن کے لئے باغ میں کانٹے نہ چنو
تم نے جانے کی اگر ٹھان لی دل میں تو سنو
اپنے ہاتھوں سے مجھے زہر پلا کر جانا
میری مٹی کو بھی مٹی میں ملا کر جانا
میری امید میرا پیار میری آس رہو
تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میرے پاس رہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام