جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے

غزل| مرزا رفیع سوداؔ انتخاب| بزم سخن

جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے
دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا
گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے
تارِ نگہ میں اس کے کیوں کر پھنسے نہ یہ دل
آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے
جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی
گو جامہ زرد پہنے یا چیرہ لال باندھے
تیرے ہی سامنے کچھ بہکے ہے میرا نالہ
ورنہ نشانے ہم نے مارے ہیں بال باندھے
بوسہ کی تو ہے خواہش پر کہیے کیوں کہ اس سے
جس کا مزاج لب پر حرفِ سوال باندھے
مارو گے کس کو جی سے کس پر کمر کسی ہے
پھرتے ہو کیوں پیارے تلوار ڈھال باندھے
دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا
مضموں یہ تو نے اپنے کیا حسبِ حال باندھے

سوداؔ جو ان نے باندھا زلفوں میں دل سزا ہے
شعروں میں اس کے تو نے کیوں خط و خال باندھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام