مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے

غزل| تابشؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے
کبهی ایک دجلہ ہے خون کا کبهی ایک بوند لہو کی ہے
کبهی چاک خوں سے چپک گیا کبهی خار خار پرو لیا
مرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بهی تو رفو کی ہے
نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ باغ کے
جنہیں ذکر قید و قفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلو کی ہے
یہی راه گزر ہے بہار کی یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سے تا بہ درِ قفس جو لکیر میرے لہو کی ہے
نہ جنوں نہ شور جنوں رہا ترے وحشیوں کو ہوا ہے کیا
یہ فضائے دہر تو منتظر فقط ایک نعرۂ ہو کی ہے
ہمیں عمر بهر بھی نہ مل سکی کبهی اک گهڑی بهی سکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر کوئی اک جگہ بهی رفو کی ہے
تری چشمِ مست نے ساقیا وہ نظامِ کیف بدل دیا
مگر آج بهی سرِ میکدہ وہی رسم جام و سبو کی ہے
میں ہزار سوختہ جاں سہی مرے لب پہ لاکھ فغاں سہی
نہ ہو نا امید ابھی عشق سے ابهی دل میں بوند لہو کی ہے

ابهی رند ہے ابهی پارسا تجهے تابشؔ آج ہوا ہے کیا
کبهی جستجو مے و جام کی کبهی فکر آب و وضو کی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام