گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے

غزل| نداؔ فاضلی انتخاب| بزم سخن

گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے
ہر طرف تیز ہوائیں ہیں بکھر جاؤ گے
اتنا آساں نہیں لفظوں پہ بھروسہ کرنا
گھر کی دہلیز پکارے گی جدھر جاؤ گے
ہر نئے شہر میں کچھ راتیں کڑی ہوتی ہیں
چھت سے دیواریں جدا ہوں گی تو ڈر جاؤ گے
شام ہوتے ہی سمٹ جائیں گے سارے رستے
بہتے دریا سے جہاں ہو گے ٹھہر جاؤ گے

پہلے ہر چیز نظر آئے گی بے معنی سی
اور پھر اپنی ہی نظروں سے اتر جاؤ گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام