وہ آئے ہر کسی کے سامنے اور بار بار آئے

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

وہ آئے ہر کسی کے سامنے اور بار بار آئے
بہ نامِ رنگ و بُو آئے بہ عنوانِ بہار آئے
وہ آئے اور لے کر مژدۂ صبر و قرار آئے
یہی لمحے محبت میں مجھے نا سازگار آئے
یہ حالت ہو گئی ہے ان دنوں اپنے گلستاں کی
نہ جانے کب خزاں جائے نہ جانے کب بہار آئے
ہوا دار و رسن کا معرکہ جب گرم دنیا میں
تو ہنستے کھیلتے وابستگانِ زلفِ یار آئے
اِدھر اک جمگھٹا ہے نا امیدانِ محبت کا
سنبھل کر اس طرف اب گردشِ لیل و نہار آئے
تغافل کا گلہ اُن سے نہ کرنا تھا ابھی ماہرؔ
یہ تم نے کیا کیا جیتی ہوئی بازی کو ہار آئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام