لوگ یک رنگئ وحشت سے بھی اکتائے ہیں

غزل| راہیؔ معصوم رضا انتخاب| بزم سخن

لوگ یک رنگئ وحشت سے بھی اکتائے ہیں
ہم بیاباں سے یہی ایک خبر لائے ہیں
پیاس بنیاد ہے جینے کی بجھائیں کیسے
ہم نے یہ خواب نہ دیکھے ہیں نہ دکھلائے ہیں
ہم تھکے ہارے ہیں اے عزم سفر ہم کو سنبھال
کہیں سایہ جو نظر آیا ہے گھبرائے ہیں
زندگی! ڈھونڈ لے تو بھی کسی دیوانے کو
اس کے گیسو تو مرے پیار نے سلجھائے ہیں
یاد جس چیز کو کہتے ہیں وہ پرچھائیں ہے
اور سائے بھی کسی شخص کے ہاتھ آئے ہیں
ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

اس بیابانِ در و بام میں کیا رکھا ہے
ہم ہی دیوانے ہیں صحرا سے چلے آئے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام