وہ دل میں غمزدوں کے سما کر چلے گئے

غزل| کالی داس گپتا رضاؔ انتخاب| بزم سخن

وہ دل میں غمزدوں کے سما کر چلے گئے
ہنس ہنس کے آئے پھول کھلا کر چلے گئے
بہتر تھا مجھ کو تِل کی طرح رکھتے آنکھ میں
یہ کیا کہ مثلِ اشک گرا کر چلے گئے
عشاق کو نہ ڈھونڈیئے اب بزمِ عشق میں
کب کے یہاں سے دل وہ گنوا کر چلے گئے
شبنم کے قطرے دھوپ میں مٹنے کی آڑ میں
پھولوں کو رازِ زیست بتا کر چلے گئے
بے چین ہم تھے لاکھ مگر آپ کے خیال
ہم کو ابد کی نیند سلا کر چلے گئے
جنسِ وفا کی لوٹ تھا اقرارِ باہمی
ہم لوٹ لے گئے وہ لٹا کر چلے گئے
ارمان آئے بادِ صبا کے لباس میں
ہر دل کو سبز باغ دکھا کر چلے گئے
وہ ہو کے نادم آئے رضاؔ کے مزار پر
چپ چاپ اک چراغ جلا کر گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام