ہو چکی ہیں بے ارادہ دل سے تقصیریں بہت

غزل| صباؔ اکبر آبادی انتخاب| ابو الحسن علی

ہو چکی ہیں بے ارادہ دل سے تقصیریں بہت
پڑھ چکا ہوں آپ کے ماتھے کی تحریریں بہت
عشق کا مفہوم دنیا آج تک سمجھی نہیں
حُسن والوں کی تھیں اپنے پاس تفسیریں بہت
زندگی کی جستجو میں قاتلوں کی کیا کمی؟
یہ رگِ گردن سلامت ہے تو شمشیریں بہت
دہر کے ویراں کدے میں چشمِ بینا چاہئے
ہر خرابے میں نظر آئیں گی تعمیریں بہت
پہلے ہم گستاخیاں بھی کر کے پاتے تھے صلہ
اب ذرا سی بات پر ملتی ہیں تعذیریں بہت
وہ رہِ اہلِ تمنّا میں قدم رکھتی نہیں
جس کے نقشِ پا سے وابستہ ہیں تقدیریں بہت
دیکھتا رہتا ہوں ایک اک کو شبِ تنہائی میں
ذہن میں محفوظ کر رکھی ہیں تصویریں بہت
کل بہت دیوانے تھے اور اتنی زنجیریں نہ تھیں
آج دیوانے بہت تھوڑے ہیں ، زنجیریں بہت



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام