بن گئی ہے موت کتنی خوش ادا میرے لیے

غزل| سلامؔ مچھلی شہری انتخاب| بزم سخن

بن گئی ہے موت کتنی خوش ادا میرے لیے
سر جھکا کر پھول کرتے ہیں دعا میرے لیے
تم نہ مرجھاؤ تو کلیو! کل بتا دینا اُسے
کچھ سمجھ کر کھوئی کھوئی ہے صبا میرے لیے
میں تو بس اُن کے ہی رنگ و نور کا عکاس تھا
مضطرب ہے کیوں ستاروں کی ضیا میرے لیے
میری ہی خاطر تھا عہدِ ترکِ آرائش مگر
پھر وہ آئے ہیں کنارِ آئینہ میرے لیے
جگمگا اٹھتی ہے دل میں اک مقدس روشنی
جب نہیں ہوتا کہیں بھی آسرا میرے لیے
سوچتا ہوں پھر اٹھا لوں بربطِ کہنہ سلامؔ!
منتظر ہے شعر و نغمہ کا خدا میرے لیے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام