بچوں کی طرح وقت بِتانے میں لگے ہیں

غزل| عباس تابشؔ انتخاب| بزم سخن

بچوں کی طرح وقت بِتانے میں لگے ہیں
دیوار پہ ہم پھول بنانے میں لگے ہیں
دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو
ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں
لگتا ہے وہی دن ہی گزارے ہیں تیرے ساتھ
وہ دن جو تجھے اپنا بنانے میں لگے ہیں
لوری جو سنی تھی وہی بچوں کو سنا کر
ہم دیکھے ہوئے خواب دکھانے میں لگے ہیں
دیوار کے اس پار نہیں دیکھ رہے کیا؟
یہ لوگ جو دیوار گرانے میں لگے ہیں
ہر لقمہ تر خون میں تر ہے تو عجب کیا
ہم رزق نہیں ظلم کمانے میں لگے ہیں

افسوس کہ یہ شہر جنہیں پال رہا ہے
دیمک کی طرح شہر کو کھانے میں لگے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام